Start of Main Content

بیٹی لاؤر

بیٹی لاؤر اپنے آپ کو پولینڈ سے تعلق رکھنے والی عیسیائی ظاہر کرنے کی وجہ سے ہولوکاسٹ میں بچ گئيں، اس حوالے سے وہ اُس غیر انسانی سلوک کے بارے میں ایک منفرد نقطہ نظر رکھتی ہیں جو مرحلہ وار انداز میں ہولوکاسٹ کی وجہ بنا۔

Transcript

بیٹی لاؤر: پیدائش کے وقت میرا نام برٹا وائز برگر تھا۔ مجھے برٹل کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ جب میں پولینڈ آئی، مجھے بیٹس پکارا جانے لگا۔ جب میں عیسائی بنی، میرا نام کرسٹینا زولکوس رکھا گیا۔ اور جب میں یہاں آئی، میں نہیں چاہتی تھی کہ مجھے برٹا کے نام سے پکارا جائے۔ اور میں کرسٹینا بھی نہيں رہی، اور اس طرح میرا نام بیٹی پڑ گیا۔

ایلیسا فشمین: ان کی نام کی ہر تبدیلی بیٹی لاؤر کی زندگی میں تبدیلی کی نمائندگی کرتی ہے - پہلے وہ 1930 کی دہائی میں جرمنی سے تعلق رکھنے والی یہودی خاتون تھیں، اس کے بعد پولینڈ میں نازیوں سے اپنی یہودی شناخت چھپانے والی لڑکی تھیں جو اپنے بالوں کو زرد رنگتی تھیں، اور بالآخر وہ ایک امریکی مہاجر ہو گئیں جنہیں جنگ کے بعد اپنے والد سے دوبارہ ملا دیا گیا تھا۔ ان تجربات کی وجہ سے ہولوکاسٹ کو ہوا دینے والی غیرانسانی سلوک کا مرحلہ وار عمل کا ایک منفرد نظریہ لاؤر کے سامنے آیا۔

سام دشمنی کے خلاف آوازیں میں خوش آمدید۔ یہ یونائیٹڈ اسٹیٹس ھولوکاسٹ میوزیم کی طرف سے جاری ہونے والی ایک پوڈ کاسٹ سیریز ایلزبیتھ اور جو اولیور اسٹینٹن فاؤنڈیشن کے بھرپور تعاون کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ میں ایلیسا فشمین ہوں۔ ہر مہینے ہم ان مختلف طریقوں پر روشنی ڈالنے کے لئے ایک مہمان کو دعوت دیتے ہیں جن کے ذریعے سام دشمنی اورنفرت ہماری دنیا کو متاثر کرتے ہيں۔ ورمانٹ میں اپنے گھر سے ہمارے ساتھ بیٹی لاؤر موجود ہيں۔

بیٹی لاؤر: میری پیدائش 1926 میں جرمنی میں ہوئی تھی، اور میں وہاں بارہ سال کی عمر تک رہی۔ ظاہر ہے، وہاں ذیادتی اور پکڑ دھکڑ تو تھی ہی۔ اور اس وقت، وہ صرف یہی چاہتے تھے کہ یہودی جرمنی چھوڑ کر چلے جائيں، اور کوئی ہمیں رکھنا نہيں چاہتا تھا۔ امریکہ ہماری تعداد کو محدود کرنا چاہتا تھا اور برطانوی حکم کے مطابق یہودی فلسطین میں داخل نہيں ہوسکتے تھے۔ لیکن میرے والد نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ نہایت پیچیدگیوں کے بعد وہ نکل کر امریکہ جانے میں کامیاب ہوگئے۔ انہيں نے ہمیں کاغذات بھجوائے لیکن اس دوران ایکشن میں جرمنی سے تمام یہودیوں کو خارج کرکے پولینڈ بھجوا دیا گيا۔ ہميں ٹرک میں لے جایا گیا۔ وہاں ایک ندی تھی، انہوں نے ندی کے پار لکڑی کے پٹھے لگا دیئے اور ہم سے کہا کہ ندی پار کرنے پر ہم پولینڈ پہنچ جائيں گے۔ جس نے بھی پلٹ کر دیکھا اسے گولی ماردی جائے گی۔ اور وہاں شاید دو سو لوگ تھے، جنہيں ندی پار کرکے جانا پڑا۔ اور میں اس طرح پولینڈ پہنچ گئی۔

یہودی بستی ختم کرنے کے بعد نازی یہودی کا گویا شکار کرنے لگے؛ انہوں نے عہد کرلیا تھا کہ ایک بھی یہودی بچنے نہ پائے۔ میں ایک فیکٹری میں کام کرتی تھی اور مجھے لگتا تھا جیسے کسی کی ہمیشہ مجھ پر نظر ہے۔ میں اپنے رفقاء کار کے ساتھ گرجا گھر جاتی تھی، اور وہ بھی مجھ پر نظر رکھتے تھے، اور یہ دیکھتے تھے کہ کیا میں پہلے کنفیشن اور کمیونین پر جارہی ہوں یا نہيں۔ اور وہاں ایک اور عورت تھی، جس کے بارے میں ہمیشہ یہ سرگوشی رہتی تھی کہ اس کا تعلق کسی اور گروہ سے تھا۔ انہوں نے اس کا پیچھا کرنے کا فیصلہ کرلیا، اور یہ ارادہ کرلیا کہ اس کی رہائش معلوم کرکے گسٹاپو کو اس کی اطلاع دے دیں تاکہ کوئی اسے پکڑلے۔ انہوں نے مجھے بھی اپنے ساتھ جانے کے لئے منانے کی کوشش کی۔ اور میں ان کے ساتھ چلی بھی گئی۔ جب ہم دوسری گاڑی میں بیٹھے میں نے ان سے کہا کہ ہم غلط کررہے ہيں۔ اگر جرمن یہودیوں کو ڈھونڈنا چاہتے ہيں، انہيں یہ کام کرنے دو۔ لیکن عیسائیوں کی حیثیت سے ہمیں ایسا نہيں کرنا چاہئیے۔" اور انہوں نے اس کا پیچھا کرنا چھوڑدیا۔ مجھے یہ سوچ کر خوشی ہوتی ہے کہ میری وجہ سے اس کی جان بچ گئی، لیکن اس کے بعد میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔ بہرحال، کچھ عرصے بعد، شاید دو دن بعد ہی، مالک مکان نے مجھے بلا کر بتایا کہ اس نے میرے یہودی ہونے کے بارے میں افواہيں سنی تھیں۔ اور میں نے کہا "نہيں، مجھے نہيں معلوم، آپ ایسا کیوں پوچھ رہی ہیں؟" اور انہوں نے کہا کہ وہ خطرہ نہيں مول سکتی۔ اور افواہیں پھیل رہی ہيں۔ کیا تم یہودی ہو؟" میں نے کہا "بالکل نہيں!" اور انہوں نے کہا کہ انہيں میری بات پر یقین تھا۔ لیکن دوبارہ وہاں آنے سے منع کردیا۔" دبے الفاظ میں انہوں نے یہ کہہ دیا کہ انہیں مجھ پر یقین نہيں تھا اور وہ مزید اپنے آپ کو اور مجھے خطرے میں نہيں ڈالنا چاہتی تھی۔

مجھے اس شناخت کے معاملے سے فرق نہيں پڑتا۔ مجھے پتہ ہے کہ میں کون ہوں، لیکن میں یہ بات چھپا کر دوسری زندگی گزارنے پر مجبور تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ بعض اوقات اچھے لوگ مل جانے کی وجہ سے – جو میری مدد نہ بھی کر سکے تو انہوں نے مجھے نقصان بھی نہيں پہنچایا - مجھے بہت سہارا ملا۔ لیکن پھر شیطانوں والا سلوک شروع ہوگیا۔ اور پھر یہ شیطانی سلوک چلتا ہی رہتا ہے، اور پھر اچانک "دوسرا شخص" وہ شخص بن جاتا ہے جسے انسان کا رتبہ بھی نہیں دیا جاسکتا ہے اور پھر وہ "دوسرا" شخص بن جاتا ہے جسے آپ گیس چیمبر میں ختم کرسکتے ہيں۔ لیکن مجھے صرف یہ لگتا تھا، اور واقعی یہ لگتا تھا، کہ جو میں نے دیکھا اور جس تجربے سے میں گزر کر آئی تھی، ایسا دوبارہ نہيں ہوگا۔ لیکن مجھے نہيں لگتا کہ ایسا ہوگا۔

بیٹی لاؤر کی آپ بیتی Hiding in Plain Sight سے مزید جانيں۔