Start of Main Content

کیرن آرم سٹرانگ

سب سے زہادہ بکنے والی کتابوں کی مصنف کیرن آرم سٹرانگ سمجھتی ہیں کہ مختلف مذہبی روایات رکھنے والوں کو ہر صورت اِس بات کا احساس کرنا ہو گا کہ اُن کے سوالات اور اقدار مشترک ہیں۔

Transcript

ہم اکثر کہتے ہیں کہ آش وٹز کیمپ غیر انسانی ہے اور یہ کہ اِس سے شدید نوعیت کی انسانیت سوزی کا اظہار ہوتا ہے۔ لیکن ہمیں اِس حقیقت کا بھی سامنا کرنا ہو گا کہ آش وٹز ایک لحاظ سے انسانی بھی ہے کیونکہ یہ وہی کچھ ہے جو ہم کرتے ہیں۔ ہم ویسے ہی قاتل بھی ہیں جیسے جانور اور درندے ہوتے ہیں۔ دوسری بہت سی جاندار نسلوں کے بر خلاف ہم اپنے ہی جیسے لوگوں کا شکار کرتے ہیں اور اُنہیں مار ڈالتے ہیں۔

ڈینیل گرین: کیرن آرم سٹرانگ ایک نوجوان خاتون کی حیثیت سے کانونٹ میں داخل ہوئی تھیں لیکن جب وہ کانونٹ کے پابند ماحول اور وہ کیفیت جسے کیرن غیر دانشمندانہ روحانیت سے تعبیر کرتی ہیں سے پریشان ہوئیں تو انہوں نے 1962 میں کانونٹ چھوڑ دیا۔ کیرن آرم سٹرانگ کئی برس تک مذہب سے متنفر رہیں اور وہ بتاتی ہیں کہ اُنہیں کوئی مذہبی کتاب دیکھتے ہی شدید ردِ عمل کا احساس ہوتا تھا۔ لیکن آج وہ سب سے زیادہ بکنے والی کتابوں کی مصنفہ ہیں جن میں "ہسٹری آف گاڈ" سمیت دنیا کی تمام عظیم روایتوں کے بارے میں کتابیں شامل ہیں۔ اگرچہ کیرن اپنے آپ کو ایک ایسا انسان قرار دیتی ہیں جو مذہب کی جانب واپس لوٹ آیا ہو وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ مختلف مذہبی روایات کے حامل لوگوں کو ہر صورت یہ احساس ہو جانا چاہئیے کہ اُن کی اقدار بھی مشترک ہیں اور سوال بھی۔

میں آپ کو"سام دشمنی کے خلاف آوازیں" یعنی "Voices on Antisemitism" میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ یہ یونائیٹڈ اسٹیٹس ہالوکاسٹ میموریل میوزیم کی مُفت پاڈ کاسٹ سیریز کا ایک حصہ ہے۔ میں ڈینیل گرین ہوں۔ ہم ہر دوسرے ہفتے آج کی دنیا پر مختلف حوالوں سے سام دشمنی اور نفرت کے مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کیلئے ایک مہمان کو مدعو کرتے ہیں۔ آج کی مہمان ہیں مصنفہ اور مؤرخ کیرن آرم سٹرانگ۔

کیرن آرم سٹرانگ: آش وٹز کیمپ کے بارے میں ایک زبردست کہانی سنائی جاتی ہے کہ کچھ یہودی اپنے ربّی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور وہ خدا کے خلاف مقدمہ چلا رہے تھے۔ یہ وہی خدا تھا جسے اپنے لوگوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تمام بنی نوع انسان کیلئے رحیم ہے اور جو قادرِ مطلق ہے۔ یہ لوگ منکشف ہونے والے خوف کا جائزہ لیتے ہیں۔ وہ خدا کو سزائے موت کا حقدار قرار دیتے ہوئے قتل کر دیتے ہیں۔ پھر ربّی کہتا ہے کہ خدا مر گیا ہے اور اب شام کی نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ یہ مذہبی لحاظ سے ایک شدید اور حساس لمحہ ہے اور میرے خیال میں وہ یہ ہے کہ خدا کی ذات کا اظہار نہیں کیا جا سکتا، وہ ہمارے لئے ناقابلِ فہم اور ناقابلِ تشریح ہے۔ خدا کے بارے میں تصورات جنم لے سکتے ہیں اور ختم ہو سکتے ہیں مگر عبادت جو زندگی کے تارک ترین لمحوں میں بھی فہم و ادراک کے لئے ایک جدو جہد ہے وہ جاری رہتی ہے اور یہی ہمیں انسان بناتی ہے۔

مذہب کا مقصد ہمیں تیقن فراہم کرنا نہیں ہے۔ چینی اِس تصور میں بہت مضبوط ہیں کہ اگر آپ ہیں یعنی اگر آپ کہتے ہیں کہ آپ کو تیقن حاصل ہے تو عام طور پر یہ شخصی انا ہی ہوتی ہے کیونکہ خدا کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کوئی بھی شخص خدا کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہ سکتا۔ خدا کٹّر مزہبی عقیدوں سے ماورا ہے۔ خلدا وہی ہے جسے یہودی صوفی آئن سوف Ein Sof یعنی لافانی اور لا محدود کہتے ہیں اور یوں ہم پر اسرائیت میں کھو جاتے ہیں۔ اگر ہم خدا کی ذات کو محدود کرنا چاہیں اور اسے ایک سادہ سے تصور میں فٹ کرنے کی کوشش کریں تو ہم خدا کی ذات کو بہت چھوٹا کر دیتے ہیں۔ یہی وہ کیفیت ہے جہاں مذہبی مظالم کی کچھ بد ترین داستانیں رقم ہوتی ہیں۔

صلیبی جنگیں لڑنے والے جب لڑائی میں ھزاروں یہودیوں اور مسلمانوں کو قتل کر دیتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ یہ خدا کی رضا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ خدا جو کچھ بھی ہے وہ ایسی کسی چیز کی خواہش نہیں رکھتا۔ صلیبی جنگیں لڑنے والے جو کر رہے تھے وہ یہ ہے کہ اُنہوں نے دوسرے مذہبوں سے وابستہ لوگوں کیلئے خود اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے ایک ایسی تصوراتی اور مثالی ذات سے منصوب کر دیا جسے خود اُنہوں نے اپنی پسند اور تصور کےمطابق تخلیق کیا۔ آجکل چونکہ دنیا میں بہت زیادہ تعداد میں صلیبی جنگیں لڑنے والے موجود نہیں ہیں لہٰذا آپ ریڈیوسے پرچار کرنے والے ایسے افراد اور مبلغوں کو اکثر سنتے رہتے ہیں جوکہتے ہیں کہ "خدا کی رضا یہ ہے" یا پھر "خدا کو اُس چیز سے نفرت ہے"۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ خدائی تصورات ان مقرروں کے خیالات سے کس قدر مطابقت رکھتے ہیں۔ ہم خدا کو خود اپنے نظریات میں بڑی آسانی سے فٹ کر لیتے ہیں۔ اور خدا سے وہی کچھ کرا لیتے ہیں جو ہم خود چاہتے ہیں اور اِس عمل میں اچھی خاصی مذہبی کشش پائی جاتی ہے۔

میں اب یہ نہیں کہ سکتی کہ اِن عقیدوں میں سے کسی کی بھی سچ اور حقیقت پر اجارہ داری ہے اور یہ کہ اِن میں کوئی بھی عقیدہ کسی دوسرے عقیدے سے بہتر ہے۔ دنیا کے تمام بڑے عقیدوں میں سے ہر ایک میں خود اپنی حیرت انگیز دانشمندی موجود ہے اور ہر ایک میں خود اپنی کمزوریاں اور زوال پزیری کی علامات بھی پائی جاتی ہیں

ہم مذہبوں کو اپنی بہترین سطح پر ہی دیکھتے ہیں۔ جب بھی ہم مذہب کا تذکرہ کرتے ہیں تو اِن الفاظ کا ذکر ضرور آتا ہے یعنی "اپنی ارفع ترین سطح"۔ تمام ہی مذاہب کی بنت اِس نظرئیے پر ہے کہ وہ یہ اعتراف کرتے ہوئے خود ہمارے اندر موجود قاتل کو روکتے ہیں کہ ہر انسان انفرادی طور پر مقدس ہے اور اُس کے تقدس کی پامالی نہیں کی جا سکتی۔ لیکن ایک دفعہ جب آپ اِس شعور کو کھو بیٹھتے ہیں تو اس کا نتیجہ آش وٹز کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن ایک پر اسرار انداز میں اذیت دینے والے کیمپوں کا تصور اُسی آگ کی یاد دلاتا ہے جس نے یورپ کے لوگوں کو قرونِ وسطٰی سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا یعنی انتہائی تاریکی، کوڑا، تضحیک اور شدید تیزابی بو۔ اُس دوزخی عزاب کے نشانات موجود ہیں۔ آج کے اِس جدید دور میں ویسے ہی عذاب کے نمونوں کو دیکھ کر آپ جان سکتے ہیں کہ جب ہم انسان کے تقدس کی پامالی کرتے ہیں تو کیا ہوتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ آپ محض ایک خاص نطرئیے یا کسی مخصوص خدائی تصور سے ہی وابستگی رکھیں لییکن جو چیز آپ کو سمجھنی ہو گی وہ ہر ایک انسان کا مکمل طور پر تقدس کرنا ہی ہے اِس بات سے قطع نظر کہ وہ آدمی یا عورت کس نسل، نظرئیے یا مذہبی عقیدے کی حامل ہو۔

ہماری تمام روایات نے ایسے حالات میں جنم لیا جب ہر طرف شدید تشدد کا دور دورہ تھا۔ میں نے اپنی تحقیق سے جو دریافت کیا ہے وہ یہ ہے کہ مذہبی تبدیلی یا دنیا کی بڑی روایات یا پھر دنیا کے بڑے عقیدوں کی تبدیلی کے ہر واقعے کے محرکات حقیقت میں وہی تشدد، انسانی نفسیات میں تشدد کو منظم طریقے سے داخل کرنے کے عمل، تشدد کی وجوہات کی تلاش، ہماری خود غرضی، لالچ اور خود پرستی کے مسلسل جاری رہنے والے عمل کا ہی ردِ عمل ہے۔

لہٰذا یہ ایک طرح سے ہمارے تشدد کو تسلیم کرنے اور اس تشدد اور نفرت کو بلند سطح تک لیجانے کی کوششوں کے مترادف ہے جہاں آپ امن اور سچائی کی طرف جانے کیلئے شدید نفسیاتی دباؤ اور جدوجہد کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ آپ تشدد سے اپنی آنکھیں نہیں موڑ سکتے اور یہ نہیں کہ سکتے کہ ہر چیز بالکل ٹھیک ہے اور ہم سب بہترین انسان ہیں۔ یہ سب فضول بات ہے۔ ہمیں اُس تجربے کو اپنے دلوں میں محسوس کرنا ہے، اسے سمجھنا ہے اور یہ تسلیم کرنا ہے کہ یہ موجود ہے۔ خدا کیلئے ایسا ضرور کیجئیے۔ اگر ہم نے اپنا محاسبہ کرنے کی کوشش نہ کی اور دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانے سے پہلے ہم نے اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش نہ کی تو ہم سب بھی دہشت گرد بن سکتے ہیں۔