Start of Main Content

مسلم دنیا میں سام دشمنی اور امریکہ دشمنی سے کیسے نمٹا جائے

امریکن یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز کی ابنِ خلدون چیئر پر فائز سفیر اکبر احمد کے ساتھ ایک گفتگو سے اقتباس

یونائیٹڈ اسٹیٹس ہالوکاسٹ میموریل میوزیم واشنگٹن ڈی۔ سی 22 جون 2006

میوزیم کی ڈائریکٹر سارا بلوم فیلڈ: میوزیم میں خوش آمدید۔ میں سارا بلوم فیلڈ ہوں اور مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں اِس

میوزیم کی ڈائریکٹر ہوں۔ آج رات ہم نے ایک نہایت ہی دلچسپ اور میرے خیال میں بہت ہی بروقت پروگرام ترتیب دیا ہے جس میں ایک منفرد شخصیت اور اُن کے حالیہ منفرد تجربات کی روشنی میں سام دشمنی جیسی بدقسمت صورتِ حال کے محرکات کا جائزہ لیا جائے گا۔ یہ پروگرام ہمارے جاری سلسلے "انسائیٹس" کی ایک کڑی ہے۔ اگر آپ اِس بارے میں مذید جاننے کے خواہاں ہوں تو ہم اُمید کرتے ہیں کہ آپ ہماری ویب سائیٹ سے استفادہ کریں گے۔ یہ پروگرام اِس جگہ کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ پر بھی پیش کیا جا رہا ہے۔ اِس کا انعقاد ہیلینا روبنسٹائین فاؤنڈیشن کے توسط سے ممکن ہوا ہے۔

آج رات ہمارے ساتھ متعدد نہایت ہی خاص مہمان موجود ہیں۔ میرے لئے سب کا تعارف کرانا ممکن نہ ہو گا مگر ہمارے ہمراہ مسلمان اور یہودی راہنما موجود ہیں جو نہ صرف امریکہ بھر سے طویل مسافت طے کر کے یہاں پہنچے ہیں بلکہ کینڈا سمیت دیگر ممالک سے بھی یہاں آئے ہیں۔ اِن میں بہت سے ایسے سفارتکار، علمی شخصیات اور دیگر افراد شامل ہیں جو بین المزاہب مکالمے کو فروغ دینے میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہمارے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ نائجیریا کے نائب صدر جناب ابوبکر اور بنگلہ دیش اور مراکش کے سفراء کے علاوہ عالمی بینک کے حکام بھی یہاں موجود ہیں۔ لہذا ہم معزز مہمانوں کے ساتھ آپ سب کو اِس تقریب میں خوش آمدید کہتے ہیں۔

جب ہم سام دشمنی پر ایک حیرت انگیز واقعے کے حوالے سے غور کرتے ہیں تو ہم جانتے ہیں کہ اِس بارے میں آجکل بہت کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے۔ یہ خاصی حد تک ایک پیچیدہ عمل ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ مسیحیت اور اسلام جیسے واحدانیت پرست مزاہب کے ساتھ ساتھ دوسری روایات میں بھی موجود رہا ہے۔ اِس کا وجود بائیں اور دائیں بازو کی سیاستوں میں، جمہوری، مطلق العنان اور جابرانہ معاشروں میں، اچھے اور برے اقتصادی ادوار میں تعلیم یافتہ اُمرا اور غیر تعلیم یافتہ غرباء کے طبقوں سب میں موجود رہا ہے۔ یہ اُس نظام کا بھی حصہ رہا ہے جسے آجکل ہم عالمگیریت کہتے ہیں اورالگ تھلگ یہودی یا غیر یہودی معاشروں میں بھی اِس کا وجود ہے اور شاید یہ کہنا بہتر ہو گا کہ یہودیوں یا غیر یہودیوں دونوں میں یہ وجود رکھتا ہے۔ اب یہ واضح نہیں ہے کہ اِس رویّے کی پائیداری اور حالات سے مطابقت سے متعلقہ حقائق کس حد تک اِس پیچیدہ صورتِ حال کو سمجھنے میں ہماری مدد کرسکتے ہیں۔ تاہم جیسا کہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ طویل ترین نفرت ہے، اِس میں یقینا" کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے۔

آجکل ہم عوامی اور عالمانہ سطح پر ہونے والی بحث میں کچھ اِس قسم کے سوال بھی سن رہے ہیں کہ کیا یہود دشمنی میں اضافہ حقیقتا" کوئی نیا رویّہ ہے ؟ اِس کا تقابل ھالوکاسٹ کی سام دشمنی سے کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اِس کا تعلق سیہونیت کے بارے میں پائی جانے والی مخاصمت اور امریکہ دشمنی سے کیسے جوڑا جا سکتا ہے؟ ایک اور سوال جو پوچھا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اِن سب سوالوں اور اِس نظریاتی نقطہ نظر کی اہمیت کیا ہے۔

آئیے ہم ایک عملی قدم اُٹھاتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اِس مسئلے سے کیسے نمٹا جائے۔ یہ بات ہمارے لئے باعثِ مسرت ہے کہ اِس وقت ہمارے ساتھ اکبر احمد موجود ہیں جو اِس مسئلے کے تمام پہلوؤں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اکبر احمد امریکن یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز کی ابنِ خلدون چیئر پر فائز ہیں۔ آپ دور حاضر کے اسلام پر ایک اتھارٹی ہیں اور اسلامی ممالک کے ایک تفصیلی دورے سے حال ہی میں واپس لوٹے ہیں جہاں اُنہوں نے یونیورسٹیوں ، مساجد اورمدرسوں میں خطاب کیا۔ اُنہوں نے پاکستان کے صدر پرویز مشرف اور کئی ایک مذہبی علماء اوردانشوروں سے انٹرویو کئے۔ اُنہوں نے یہ دورہ بروکنگز انسٹی ٹیوٹ Brookings Institute ، دا پیو فورم آن ریلیجن اِن پبلک لائف The Pew Forum on Religion in Public Life اور امریکن یونیورسٹی کے توسّط سے کیا۔ لہذا وہ اِن اُمور کا جائزہ لینے کیلئے بے حد مناسب شخصیت ہیں۔

سب سے پہلے میں آج کی اِس تقریب کا طریقئہ کار واضح کردوں۔ ڈاکٹر احمد پہلے کچھ کلمات کہیں گے اور پھر ہمارے لئے یہ بھی اعزاز کی بات ہے کہ ہماری ایک عزیز دوست اینڈریا کوپیل Andrea Koppel یہاں موجود ہیں۔ آپ میں سے بہت سے لوگ اُن کو جانتے ہیں۔ وہ ڈاکٹر احمد سے کچھ بات چیت کریں گے۔ آپ شاید جانتے ہوں گے کہ اینڈریا کوپیل کانگریس کیلئے سی این این کی نمائیندہ رہی ہیں۔ اِس سے پہلے وہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کیلئے سی این این کی نمائیندہ تھیں۔ ہم اُنہیں بخوبی جانتے ہیں کیونکہ جب ہم نے یہاں فلم "ہوٹل روانڈا" کی تقریبِ رونمائی کی تھی تو اُنہوں نے اُس کی میزبانی کی تھی۔

1. ھالوکاسٹ سے حاصل ہونے والے سبق ڈاکٹر احمد: میں سمجھتا ہوں کہ ھالوکاسٹ کئی حوالوں سے ایک غیر معمولی ٹریجڈی یا المناک واقعہ تھا۔ انسانی حوالے سے، اخلاقی حوالے سے اور پھر اپنی اقلیتوں کو تحفظ دینے میں جدید ریاست کی ناکامی کے حوالے سے۔ آجکل کے دور میں اِس ناکامی میں ہمارے لئے سبق پوشیدہ ہے جہاں بہت سی ریاستوں میں متعدد اقلیتیں مشکلات کا شکار ہیں اور اکثریتیں ایسے استبدادی حربے استعمال کرتی ہیں جن سے اقلیتوں کیلئے انتہائی تکلیف دہ حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ہم میں سے ہر کسی کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ دنیا کے ایک حصے کی اقلیتیں دنیا کے کسی دوسے حصے میں اکثریت ہو سکتی ہیں۔ اسلئے ہمیں اُن حقوق کے بارے میں حساس ہونا چاہئیے جو ہمیں ایک ہمدردی کے طور پر نہیں بلکہ ایک مہذب معاشرے میں رہنے کی وجہ سے ہر صورت حاصل ہونے چاہئیں۔ اور اگر ہم ایسی راہیں تلاش نہیں کریں گے تو ہمیں اکیسویں صدی میں ایک خطرناک، غیر یقینی اور پرتشدد صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔

2. شدت پسندانہ اسلامی بنیاد پرستی کیوں بڑھ رہی ہے؟ سی این این کی نمائیندہ اینڈریا کوپیل: آپ اور میں فون پر بات کر رہے تھے اور آپ نے کہا تھا کہ آپ اُسامہ بن لاڈن کی مقبولیت پر سخت حیران ہیں۔

ڈاکٹر احمد: جی ہاں! دورہ شروع کرنے سے پہلے ہم اسلامی دنیا کی قابلِ تقلید اور سرکردہ شخصیات کے بارے میں تبادلہ خیال کر رہے تھے۔ میرے لئے قابلِ تقلیڈ شخصیت جناح صاحب ہی تھےاور میں اُس جدید ریاست کے تصور کے ساتھ بڑا ہوا جو جناح صاحب کا خواب تھا۔ ہمیں سفر کے دوران اِس بات کا انکشاف ہوا کہ یہ تصور خطرے میں ہے۔ یہ واقعی شدید خطرے میں ہے۔ جدید، اعتدال پسند اور انسانیت پر مبنی روایات خطرے میں ہیں۔ تصوف جیسے متبادل نمونے بھی خطرے میں ہیں۔ قدامت پسند سطحی قسم کا اسلام فروغ پا رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ وجہ یہ ہے کہ اِن تینوں میں ایک تعلق موجود ہے۔ اسلام کے اندرایک جدوجہد کا عنصر موجود ہے جو ۱۱ ستمبر کے واقعے سے کہیں پہلے سے چلتا آیا ہے۔ ۱۱ ستمبر کے واقعے نے صورتِ حال کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔

بات یہ ہے کہ جب بھی امریکہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے اسلام پر حملہ آور ہوتا ہے یا حملہ آور ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو محبت اور رحمدلی کا درس دینے والا تصوف نظر انداز ہو جاتا ہے۔ ذرا سوچئیے۔ مثال کے طور پر میں رومی کے بارے میں بات کرتا رہا ہوں۔ رومی کا ایک شعر ہے " میں سناگاگ جاتا ہوں، کلیسا جاتا ہوں، مسجد جاتا ہوں۔ میں ہر جگہ ایک ہی عبادت گاہ اور ایک ہی انداز دیکھتا ہوں۔" یہ رومی ہیں۔ آپ میں سے جو لوگ عیسائی ہیں وہ حضرت عیسٰی کے بارے میں اُن کی نظمیں پڑھیں۔ وہ ویسے ہی جذباتی انداز میں لکھی گئی ہیں جیسے کوئی عیسائی حضرت عیسٰی اور اُن کی محبت کے حوالے سے لکھے گا۔ یہ رومی ہیں جو ایک مسلمان ہیں۔ اور جب بھی میں رومی کا حوالہ دیتا ہوں تو مسلمان کہیں گے "آپ رومی کا حوالہ دیتے ہیں۔ یہ بالکل بے محل ہے۔ ہمیں یہاں قتل کیا جا رہا ہے، ہمیں وہاں قتل کیا جا رہا ہے۔ ہم پر حملے کئے جا رہے ہیں۔ ہمارے پیغمبر کی توہین کی جا رہی ہے۔ ہمیں جنگجوؤں کی ضررت ہے۔ ہمیں ضرورت ہے کہ کوئی اُٹھ کھڑا ہو اور جوابی حملہ کرے۔" یوں تصوف مذید نظر انداز ہو جاتا ہے۔ جدت پسند کو غدّار تصور کیا جاتا ہے۔ چچا سام یا آپ جو بھی اُسے کہنا چاہیں۔ لیکن وہ نظر انداز ہو چکا ہے کیونکہ وہ ناکام ہو گیا ہے۔ جدت پسندی کا نظریہ ناکام ہو کر بدعنوان جمہوریتوں اور نا اہل نوکر شاہی میں ڈھل چکا ہے۔ یہ دوسرا نمونہ ہے۔ اب باقی رہا تیسرا نمونہ ۔ جب میں ایک نوجوان کی حیثئیت سے بڑا ہو رہا تھا تو میں نے سوچا تھا کہ وہ معمولی ہو گا اور رہے گا مگر اب یہ مرکزی حیثئیت اختیار کر چکا ہے۔

3. اُسامہ بن لاڈن کی اپیل ڈاکٹر احمد: رات کے کھانے پر سارا مجھے جرمنی اور ھالوکاسٹ کے بارے میں بتا رہی تھیں۔ اب 1930 اور 1940 کی دہائیوں کے بہت سے جرمنوں کیلئے۔۔۔ اور فلم کے اُن حصوں کو ذرا دیکھئیے۔۔۔ اور اگر آپ اُس زمانے کی ویڈیو دیکھیں توآپ لاکھوں لوگوں کو وجد کی سی کیفیت میں اِس طرح سراہتے پائیں گے جیسے ہٹلر کوئی راک اسٹار ہو اور پھر آپ محسوس کرتے ہیں کہ لوگ اُسے مسیحا سمجھنے لگے ہیں اور یہ وہی شخص ہے جو ہمیں مستقبل میں لے جانے والا ہے۔ لاکھوں لوگ اِس تصور میں مبتلا ہیں۔ اور اگر اسامہ معاشرے میں پائی جانے والی نفرت کو بڑھانے اور اک خاص مقصد کے لئے استعمال کرنے میں کامیاب ہوا ہے تو وہ یہ سب اِس لئے کر پا رہا ہے کہ اِس کا کوئی جواز موجود ہے۔ اگر ہم اِس جواز کو سمجھ رہے ہیں، اِس مسئلے سے نمٹ رہے ہیں اور اُسے حل کر رہے ہیں تو اس نفرت کو خود بخود ختم ہو جانا چاہئیے۔

کوپیل: مگر ایسا کیوں ہے کہ عرب دنیا میں ذرائع ابلاغ اِس بارے میں نہیں لکھتے یا پھر شاید لکھتے ہیں۔ وہ یہ داستانیں اور اِن کے بارے میں کیوں نہیں لکھتے؟

ڈاکٹر احمد: اینڈریا! آپ کا میڈیا آزاد ہے۔ وہ نہیں لکھ رہا۔ آپ اُن سے کیسے توقع کر سکتے ہیں۔ اُن کا میڈیا آزاد نہیں ہے۔

4. سوپر پاور، سلطنت اور امریکہ دشمنی ڈاکٹر احمد: اینڈریا! امریکہ ایک عظیم اور طاقتورملک ہے۔ آجکل یہ واحد عالمی طاقت ہے۔ آپ کو دنیا کی نفسیات کو یاد رکھنا ہو گا۔ چاہے آپ اسے پسند کریں یا نہ کریں۔ میں جانتا ہوں کہ امریکی بعض اوقات ششدر رہ جاتے ہیں۔ لیکن ہم سامراجیت پسند نہیں ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ہماری خواہش ہے کہ ہمیں تنہا چھوڑ دیا جائے۔ یہ سو سال پہلے کے برطانیہ کی مانند ہے جب کہتے تھے کہ برطانوی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا۔ تہران یا کابل یا پھر دہلی میں جو کچھ بھی ہوتا ، لوگ یہی کہتے کہ سب برطانیہ نے کرایا ہے اور انگریز سفارتکاری کے سلسلے میں کسی قدر گریزاں رہے ہیں۔ میں مذید تقابل نہیں کروں گا۔ لیکن میں کسی قدر ابہام سے کام لیتے ہوئے اِس افواہ کا ذکر کروں گا کیونکہ اگرکہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ یہ سوچ رکھتے ہیں کہ ہم قدرتِ کاملہ رکھتے ہیں اور سب کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو یہ کوئی غلط بات بھی نہیں ہے۔ شاید بازار میں بھڑکی آگ کے ذمہ دار ہم تھے یا پھر نہیں تھے۔ لیکن جو بھی ہے اِس صورتِ حال نے برطانوی سلطنت کی یاد تازہ کر دی جو تمام دنیا پر اثر انداز تھی۔ آپ نے با اصول امریکیوں کی حیثیت سے اُن کو یہاں سے نکال دیا لیکن باقی دنیا اگلے سو برس تک اُن کے تسلط میں رہی۔ یہ ویسی ہی صورتِ حال ہے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ ہی آج دنیا کی واحد سوپر پاور ہے۔

5. دنیائے اسلام میں بڑھتی ہوئی سام دشمنی کے اسباب کیا ہیں؟ کوپیل: ایک اور سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ اسرائیل کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کر لیتا ہے تو کیا امریکہ دشمنی میں کوئی کم آ سکتی ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا صیہونیت دشمنی ہی اِس مسئلے کی جڑ نہیں ہے؟

ڈاکٹر احمد: یہ دست بھی ہے اور غلط بھی۔ اگر امریکی پالیسی میں تبدیلی ہوتی ہے تو دنیائے اسلام میں اسے ایک متوازن نقطہ نظر کے طور پر دیکھا جائے گا اور اِس کا خاطر خواہ نتیجہ نکلے گا اور منفی صورتِ حال میں کمی واقع ہو گی۔ لیکن یہ دنیائے اسلام کیلئے محض اسرائیلی مسئلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ کئی مسائل ہیں۔ تعلیم کا فقدان ایک مسئلہ ہے۔ ہم اطلاعات، ذرائع ابلاغ اور امراء اور غرباء کے درمیان موجود خلیج کے بارے میں بات کر چکے ہیں۔ ہم شہروں میں جاتے ہیں تو بڑے بڑے مکانات دیکھتے ہیں۔ وہاں لوگوں کے پاس دولت کی ریل پیل ہے۔ دوسری جانب کچی بستیاں ہیں۔ وہاں ہمیں شدید مایوسی کی کیفیت دکھائی دے گی اور وہاں لوگ کہیں گے "ہمارا مستقبل کیا ہے؟ ہم اِس کی پرواہ بھی کیوں کریں؟" یہ بڑے مسائل ہیں۔ لہذا جی ہاں! یہ اسرائیل کا معاملہ اِس معمے کا صرف ایک حصہ ہے اور ہماری دعا ہے کہ یہ حل ہو جائے۔ تاہم اسرائیلی مسئلے کا انڈونیشیا یا جنوبی ایشیا کے مسائل سے کوئی براہِ راست تعلق نہیں ہے۔ ممکن ہے بعض مسلمان اسے دماغی بیساکھی یا عذر کے طور پر استعمال کریں لیکن یہ بہت سے مسائل میں سے محض ایک مسئلہ ہے۔

6. اسلام میں خودی کا تصور اور سام دشمنی ڈاکٹر احمد: دنیائے اسلام ایک لحاظ سے، اور یہ میرا عظیم خواب اور اُمید ہے، اپنی خودی کو پھر سے دریافت کرے۔ اسلام ایک ایسی تہذیب تھی جس نے ہسپانیہ اور دنیا کے دوسرے خطوں میں ایسی تہذیب متعارف کرائی جس کی بنیاد امن، وحم دلی اور رواداری کے جذبات پر تھی اور کوئی بھی معاشرہ خرابیوں سے مکمل طور پر پاک نہیں ہوتا۔ میں جانتا ہوں کہ کبھی اچھے دور آتے ہیں اور کبھی خراب دور۔ لیکن مجموعی طور پر بعض ادوار میں یہ تہذیب کامیاب رہی اور ایسا ایک ھزار سال قبل ہوا تھا۔ اُس تہذیب نے دنیا کو اعلی فنِ تعمیر، خیالات اور تصورات دئے۔ ایک ھزار سال پہلے اسلامی تہذیب اعلی و ارفع علوم کی گہوارہ تھی۔ اگر ہسپانیہ میں مسلمان نہ ہوتے تو یورپ میں نشاۃِ ثانیہ ممکن نہ ہوپاتی اور تھامس جیفرسن کبھی یونانی فلسفیوں کو نہ پڑھ پاتے۔ اسطو اور افلاطون جیسے یونانی فلسفیوں کے شاہ پاروں کا ترجمہ سب سے پہلے عربی زبان میں ہوا اور بعد میں عربی سے لاطینی، فرانسیسی، انگریزی اور دیگر زبانوں میں یہ تراجم ہوئے۔ اِس کام میں دو تین صدیاں صرف ہوئیں مگر یہ عمل جاری رہا۔ لہذا ہمیں اُس گزرے دور کو تسلیم کرنا ہوگا۔ ہمیں مسلمانوں کی طرف سے اپنے ماضی کو ایک مرتبہ پھر دریافت کرنے اور اقوامِ عالم کی برادری میں واپس لانے میں مدد دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو سام دشمنی خود بخود ختم ہو جائے گی۔

7. تہذیبوں کے درمیان افہام و تفہیم کی فضا کیسے قائم کی جائے؟ کوپیل: کیا اِس سلسلے میں کچھ کیا جا سکتا ہے کیونکہ آپ کی باتوں سے مجھے لگتا ہے کہ فوری طور پر کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس بہت زیادہ وقت نہیں ہے۔

ڈاکٹر احمد: فورا" ! جی ہاں۔ جی ہاں۔

کوپیل: ہمارے پاس بہت زیادہ وقت نہیں ہے۔

ڈاکٹر احمد: آپ کے پاس وقت نہیں ہے۔ جی ہاں۔

کوپیل: تو ہم مختصر عرصے کیں کیا کر سکتے ہیں؟

ڈاکٹر احمد: اینڈریا! میں کہوں گا کہ مختصر مدت میں آپ وہی کریں جو ہم نے کیا ہے۔ وہ یہ کہ معیاری گروپوں کی تشکیل کی جائے۔ ہم لوگوں کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے۔ خطروں کو معمولی نہ سمجھیں۔ یہ ایک غیر یقینی اور تشویشناک صورتِ حال ہے۔ لیکن اِن پر قابو پاتے ہوئے ٹیمیں تشکیل دیں۔ اُن کی حمایت کریں اور پھر اُنہیں باہر بھیجیں۔ امریکہ کیلئے درست ترجمانی نوجوان نسل کے مردوں اور عورتوں سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا۔ میں یونیورسٹی میں اِس نوجوان نسل کو پڑھاتا ہوں۔ مجھے یہاں حاضرین میں لارا اور حدید نظر آ رہے ہیں۔ وہ بھی میرے شاگردوں میں سے ہیں۔ کیمپس کے یہ بہترین طالب علم ۔۔ اور یہی وہ طالب علم ہیں جو مستقبل میں اِس ملک کے راہنما ہوں گے۔ اُنہیں اپنے ساتھ شامل کیجئیے۔ ہمیں اتنا خود سر نہیں ہونا چاہئیے کہ ہم یہ فرض کرنے لگیں کہ ہمارے پاس ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔ شاید یہ لوگ ہماری مدد کر سکیں۔ یہ لوگ اپنی نوجوانی کی شگفتگی کے ساتھ وہاں جائیں گے اور پھر بعد میں اُنہیں احساس ہونے لگے گا کہ اُن کی بات کوئی نہیں سن رہا اور اُن کا جوش و جذبہ ویسے ہی ماند پڑنے لگے گا جیسے عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔ اِس چینل کو استعمال کرتے ہوئے اُن کی توانائی کو دو طرفہ تبادلہ خیالات، مکالمے اور دوروں کیلئے استعمال کریں۔ دنیائے اسلام سے لوگوں کو یہاں آنے کی دعوت دیں۔ میں جانتا ہوں کہ ہم امریکن یونیورسٹی میں بہت سے اقدامات کر رہے ہیں اور یہ ایسے اقدامات ہیں جن کو بار بار دہراتے رہنے کی ضرورت ہے۔ اِن اقدامات میں ذرائع ابلاغ کو بھی شامل کر لینا چاہئیے۔ ذرائع ابلاغ کو یہ سب کچھ سننے اور دیکھنے دیجئیے۔ پھر بہت جلد رائے عامہ میں تبدیلی کا آغاز ہو گا۔ آپ غیر منطقی ذہنی مریضوں کے کسی گروہ سے نہیں نمٹ رہے جیسا کہ بدقسمتی سے ذرائع ابلاغ میں دنیائے اسلام کی عکاسی ہوتی ہے۔ آپ کو باشعور ذی عقل افراد کا سامنا ہے جن میں بعض کسی وقت کوئی احمقانہ حرکت کر بیٹھتے ہیں اور ایسا ہر تہذیب میں ہوتا ہے۔ لیکن اکثریت ایسے افراد کی ہے جو اپنی معمول کی زندگی شائستگی کے ساتھ گزارنے کے خواہاں ہیں جس کیلئے اُن سے رابطوں کی ضرورت ہے۔ وہ خلیج کو پاٹنے والے اقدامات کے منتظر ہیں۔ اُنہیں رابطوں کیلئے پلوں کی ضرورت ہے۔

یہ صفحہ مندرجہ ذیل مقامات پر بھی دستیاب ہے: